کیا ہمیں شادی کرنے سے پہلے یہ سوچنا چاہیے؟

پاکستان ایک ترقی پذیر ملک ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ جہاں ہمارے معاشرے میں اور بہت سے مساٸل تیزی سے بڑھ رہے ہیں وہاں صحت کے حوالے سے ہونے والی پیچیدگی اور اس کے نقصانات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
یوں تو معاشرے میں روز بروز بڑھتی بیماریاں اور ان کا نامکمل علاج تشویش ناک ہے۔ لیکن حاملہ خواتین اور نوازٸیدہ بچے سب سے زیادہ ان مساٸل کا شکار ہیں۔ شیر خوارگی میں یا پھر کچھ سال تک بچوں کا مختلف بیماریوں میں مبتلا ہو کے معذور ہونا یا موت کے منہ میں چلے جانا عام ہے ۔ اور اس کا سب سے بڑا سبب لاعلمی اور جہالت ہے۔
پاکستان ان چند ترقی پذیر ممالک میں شامل ہے۔ جہاں زندگی کی بنیادی سہولیات کی کمی کے ساتھ ساتھ شرح خواندگی بھی خطرناک حد تک کم ہے خاص طور پر دیہات میں جہاں عورتوں میں یہ شرح نا ہونے کے برابر ہے۔

اس کے علاوہ ہمارا خاندانی نظام اور کزن میرج ماں اور نوازٸیدہ بچوں میں ہونے والی بیماریوں کا بہت بڑا سبب ہے۔
بچوں اور بچیوں کی شادی کرتے ہوئے جہاں ہر بات کا خصوصی خیال رکھا جاتا ہے کہ لڑکی خوب صورت ہو خاندانی گھریلو امور میں طاق مناسب حد تک پڑھی لکھی ہو اور لڑکا برسرِروزگار ہو مالی لحاظ سے مضبوط ہو وہاں دونوں فریقین کی صحت جیسے اہم ترین مسئلے پر غور و فکر کرنا تو ایک طرف افسوس کہ اس قدر حساس موضوع کا ذکر تک بھی نہیں کیا جاتا۔
لڑکا لڑکی دونوں کی صحت کے حوالے سے کوٸی سوچ بچار کرنا یا شادی سے پہلے دونوں یا خاص طور پر لڑکی کی جسمانی صحت کے بارے میں غور و فکر کرنا ضروری نہیں سمجھا جاتا۔اور ان سب مساٸل کو حل کرنے کی کوشش نہ شادی سے پہلے کی جاتی ہے اور نہ شادی کے بعد۔

جب کہ یہ جانتے ہوٸے بھی کہ ایک صحت مند ماں ہی ایک صحت مند معاشرے کی بنیاد رکھ سکتی ہے۔ اس سب کے باوجود حاملہ خواتین کو ان کی اور ان کے ہونے والے بچے کی صحت کے بارے کوٸی آگہی نہیں ہوتی۔ طبی ماہرین کے مطابق نوازٸیدہ بچوں میں ہونے والی بیماریاں زیادہ تر کزن میرج کی وجہ سے پھیلتی ہیں۔اس لیے ہر فورم پہ ان کا سدِباب کرنا نہایت ضروری ہے۔ جس کے لیے اگر شادی سے پہلے چند احتیاطی تدابیر اختیار کر لی جاٸیں تو ایک ماں صحت مند بچے کو جنم دے سکتی ہے۔
اس سلسلے میں سب سے ضروری ہے کہ جہاں تک ممکن ہو کزن میرج کے رواج کو ختم کر دیا جاٸے۔ یا پھر شادی سے پہلے لڑکا اور لڑکی دونوں کا مکمل طبی معاٸنہ ہو اور کوٸی بھی ایسی بیماری جو مورثی ہو اس کی تشخیص ہو جانے پر ان کا علاج کروا کے اپنی پوری تسلی کے بعد شادی جیسا اہم فریضہ انجام دیا جاٸے.

تاکہ ایک صحت مند اور بہترین نسل پروان چڑھ سکے۔ترقی یافتہ ممالک میں جو بیماریاں بالکل ختم ہو چکی ہیں۔ ہمارے ملک میں آج بھی شیرخوارگی سے دس بارہ سال کی عمر تک کے بچے ان مختلف بیماریوں کا شکار ہیں۔ جیسا کہ پچھلی کئی دہاٸیوں سے پولیو ویکسین باقاعدہ ہونے کے باوجود بھی اس بیماری کو کنٹرول کرنا مشکل ہو رہا۔


تھیلسیمیا جیسی خوف ناک بیماری سے اب بھی ہر سال کتنے ہی بچے موت کا شکار ہو جاتے ہیں۔ مرگی جیسی موذی مرض میں مبتلا لاکھوں بچے تکلیف دہ زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ اور یہ سب ہماری اپنی لا پرواہی اور کوتاہی کا نتیجہ ہے ۔حمل کے دوران اور پیدا ہونے کے فوراً بعد سے نو مہینے تک بچوں کو حفاظتی ٹیکے لگانےکے باوجود ہمارے بچے ان تمام بیماریوں کا شکار ہو کر کبھی ذہنی اور کبھی جسمانی بیماریوں میں مبتلا ہو رہے ہیں۔ اور ہم ان کی تکالیف پر رو دھو کے قسمت کو موردِ الزام ٹھہرا کے بری الزمہ ہو جا تے ہیں جب کہ اس صورت حال کا سبب یہی ہے کہ ہمارے ہاں مورثی بیماریوں کے روک تھام کے لیے نہ کوئی آگاہی دی جاتی ہے اور نہ ہی کوئی کوشش کی جا رہی ہے۔ وہی گھسا پٹا برسوں سے چلتا آرہا فرسودہ نظام اس ساری صورتِ حال کا بنیادی سبب ہے۔ اپنے بچوں کی اور خاص طور پر بچیوں کی اچھی صحت کے لیے کوشش کریں ۔ تاکہ آج کی صحت مند اور تندرست بچی کل کی صحت مند ماں بن کر ایک صحت مند اور تندرست بچےکو جنم دے سکے۔

کسی بھی مورثی بیماری میں مبتلا بچے یا بچی کی شادی سے گریز کیا جاٸے۔
بظاہر تندرست اور صحت مند نظر آنے والے بچے اور بچی کا شادی سے پہلے مکمل طبی معاٸنہ کروایا جاٸے۔ دونوں یا کسی ایک میں کسی بیماری کی تشخیص ہو جاٸے تو پیسےکا ضیاع جانتے ہوٸے ان کے علاج سے پہلو تہی کی بجاٸے ان کا مکمل علاج کروا کے انہیں ایک صحت مند ماحول مہیا کیا جائے۔
یہ لڑکا لڑکی دونوں کے والدین کے لیے ضروری ہے۔

شادی ہونے کے بعد ایک کمزور لاغر اور بیمار بچے کو لے کر مارا مارا پھرنے یا بیماری سے لڑتے ہوٸے اس معصوم کو تکلیف سے موت کی آغوش میں جاتا دیکھنے سے بدرجہا بہتر یہ ہے کہ ایسی صورتِ حال پیدا ہونے سےپہلے عقل مندی کا مظاہرہ کرتے ہوٸے اسے کنٹرول کر لیا جاٸے۔ تاکہ ہمارے بچے ہمارا مستقبل بہتر اور خوش حال ہو سکے۔
یہ ہم پر ہماری آنے والی نسلوں کا قرض ہے جسے ادا کرنا ہم سب پر فرض ہے۔ آٸیے ہمارے ساتھ مل کر اس فرض کو ادا کریں ۔تا کہ ایک صحتمند اور تندرست معاشرے کی تکمیل ہو سکے

Leave a Reply





Translate »
error: Content is protected !!